Popular posts from this blog
14 August speech | Meri Pehchan Pakistan Speech in Urdu Written
"پاکستان میری پہچان " صدر گرامی قدر !آج کی محفل میں میرا موضوع تقریر ہے پاکستان میری پہچان جناب والا ! میں اپنی پہچان کی تلاش میں تحریک پاکستان کے ایمان آفرین دور میں داخل ہوتا ہوں۔ ایک طرف برطانوی طاغوت ہے جو ہزاروں برس تک حکومت کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان سامر اج ہے جو مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے پر تلا ہوا ہے۔ ان دو عفریتوں کے درمیان میرا عظیم قائد محمد علی جناح مسکرا رہا ہے۔ اس کی پیشانی پر فتح عظیم کی بشارت لکھی ہے۔ وہ اتحاد ،تنظیم اور ایمان کا اسلحہ لے کر وقت کی بلندیوں پر ابھرتا ہے۔ اسکی آواز ا وقت کا سینہ چیر کر ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن جاتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے تمام غیرت مند فرزندان توحید کے پہلو بہ پہلو میرے جیسے لاکھوں طلبہ بھی اس قائد ملت اسلامیہ کا ہراول دستہ بن جاتے ہیں۔ اور جناب صدر !ایسے ہمت آفرین دور میں ایک برطانوی نمائندہ میرے قائد سے پوچھتا ہے کہ ” پاکستان کب وجود میں آئے گا” تو میرے قائد کا یہ جواب تاریخ کی انمٹ گواہی بن جاتا ہے کہ ” پاکستان تو اس وقت ہی معرض وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلےہندو نے اسل
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو ! Urdu Poetry-ARK .03
.... نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو.... ...کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو... .....کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب..... ......مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو...... .....کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے..... ....کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو.... .....یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر..... .....چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو..... .....یہ سکونِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے...... .....وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو.... .....سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو...... ......جو نہیں عدو تَو فرازؔؔ تُو کہ نصیب دار کوئی تو ہو......
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا ، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا...... Urdu Poetry-ARK .33
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا ، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا کوئی شخص تھا میرے شہر میں کسی دُور پار کے شہر کا چلو کوئی دل تو اداس تھا چلو کوئی آنکھ تو نم رہی چلو کوئی در تو کُھلا رہا شبِ انتظار کے شہر کا کئی خوشبوئیں درِ دوست تک مرے ساتھ شمع بدست تھیں مجھے پوچھنا نہ پڑا پتہ مِرے گل عزار کے شہر کا یہ جو مَیں نے تازہ غزل کہی سو ہے نذر اہلِ فراق کی کہ نہ مِل سکا کوئی نامہ بر مجھے میرے یار کے شہر کا سو متاعِ جاں کو لئے ہوئے پلٹ آئے تیرے گرفتہ دل کسے بیچتے کہ مِلا نہیں کوئی اعتبار کے شہر کا مِری طرزِ نغمہ سرائی سے کوئی باغباں بھی تو خوش نہ تھا یہ مِرا مزاج ہے کیا کروں کہ مَیں ہوں بہار کے شہر کا کسی اور دیس کی اور کو سنا ہے فراز چلا گیا سبھی دکھ سمیٹ کے شہر کے سبھی قرض اُتار کے شہر کا
Comments
Post a Comment
Thanks