تم ایک گورکھ دھندا ہو.....! Urdu Poetry-ARK .24

....‏تم ایک گورکھ دھندا ہو
.....ناز خیالوی کی بہترین طو یل نظم   

poetry about naat in urdu,naat poetry in urdu two lines,best naat poetry in urdu,naat poetry in urdu four lines,naat poetry 2 lines,comparing poetry,


.....کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا، کبھی وہاں پہنچا
......تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا


....غریب مِٹ گئے پامال ہو گئے لیکن
.....کسی تلک نہ تیرا آج تک نِشاں پہنچا


....ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو، تم اک گورکھ دھندا ہو

.....ہر ذرّے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
.....حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تو کیا ہے
...تم اک گورکھ دھندا ہو

....تجھے دیر و ہرم میں میں نے ڈھونڈا، تو نہیں ملتا
.....مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے


....ڈھونڈے نہیں ملے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
....اور پھر یہ تماشہ ہے جہاں ہم ہیں وہیں تم
....تم اک گورکھ دھندا ہو

.....جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
.....پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُرفن تیرا
....دو گھروں کا ہے چراغ اِک رُخِ روشن تیرا
.....تم اک گورکھ دھندا ہو

....جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
....اُسی کھوئے ہوئے کو کچھ مِلا ہے


.....نہ بُت خانے، نہ کعبے میں مِلاہے
.....مگر ٹوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے


....عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
.....کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے

....نہیں ہے تو تو پھر اِنکار کیسا
....نفی بھی تیرے ہونے کا پتا ہے


....میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
....اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے


....نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
....تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....حیران ہوں اِس بات پہ تم کون ہو کیا ہو
.....ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو


....عقل میں جو گھِر گیا لا اِنتہا کیوںکر ہوا
....جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوںکر ہوا

....فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
....ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں


.....پتا یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
....تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دِل میں
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
....پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تُم
....جلوہ دِکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تُم


.....دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تُم
.....جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تُم

....حیراں ہوں میرے دِل میں سمائے ہو کِس طرح
....ہالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تُم


....یہ معبد و حرم یہ کلیسا و دیر کیوں
....ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تُم
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....دِل پہ حیرت نے عجب رںگ جما رکھا ہے
....ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے


.....کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکّر کیا ہے
.....کھیل کیا تُم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے


.....روح کو جسم کے پنجرے میں بنا کر قیدی
.....اُس پہ پھر موت کا پہرا بھی بِٹھا رکھا ہے

....دے کے تدبیر کے پنچھی کو اُڑانیں تُم نے
....دامِ تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے


.....کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تُم نے
......ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے


.....لامکانی کا بہر حال ہے دعوا بھی تمہیں
.....نحنُ اقرب کا بھی پیغام سُنا رکھا ہے

.....یہ بُرائی، وہ بھلائی، یہ جہنّم وہ بہشت
.....اِس اُلٹ پھیر میں فرماؤ کہ کیا رکھا ہے


...جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
....عدل و اِنصاف کا میعار بھی کیا رکھا ہے

....دے کے اِنسان کو دُنیا میں خلافت اپنی
....اِک تماشا بھی زمانے میں بنا رکھا ہے


....اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
....سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
....تم اک گورکھ دھندا ہو

....نِت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو

....جانے کس جرمِ تمنّا کی سزا دیتے ہو


......کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
.....کبھی ہیروں کو بھی مِٹّی میں مِلا دیتے ہو


.....زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جِس نے
......وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

.....خواہشِ دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
......طور ہی برقِ تجلّی سے جلا دیتے ہو


......نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو قدرت کا خلیل
......خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

.....چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہِ کنعاں
.....نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو


.....دے کے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
.....آخرِ کار شہہِ مصر بنا دیتے ہو

....جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
.....بیٹھ کر دِل میں انالحق کی صدا دیتے ہو


....خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اُس پر
.....خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو


.....اپنی ہستی بھی وہ اِک روز گنوا بیٹھتا ہے
....اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

.....کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
....تم اُسے جھنگ کے بیھیرے میں رُلا دیتے ہو


.....جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
....اُس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو


.....جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
......تُم اُسے تپتے ہوئے تھل میں جلا دیتے ہو


.....سوہنی گر تُم کو مہیوال تصّور کر لے
....اُس کو بِپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو


.....خود جو چاہو تو سرِ عرش بُلا کر محبوب
.....ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
....تُم اِک گورکھ دھندا ہو

....جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے بُرا سا
....پھر بھی ہے مجھے تُم سے بہر حال گِلا سا


.....چُپ چاپ رہے دیکھتے تُم عرشِ بریں پر
.....تپتے ہوئے کربل میں محمد کا نواسا
......کِس طرح پِلاتا تھا لہو اپنا وفا کو


.....خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا
.....دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
.....تُم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا

.....ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
.....مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا


.....کل تاج سجا دیکھا تھا جِس شخص کے سر پر
....ہے آج اُسی شخص کے ہاتھوں ہی میں کاسہ
...یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جوابأّ
....اِس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شنا سا
....تُم اِک گورکھ دھندا ہو

.....ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
.....تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم
....تُم اِک گورکھ دھندا ہو

....دِل سے ارماں جو نِکل جائے تو جگنو ہو جائے
.....اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے


.....بال بیکا نہ کِسی کا ہو چھری کے نیچے
.....حلقِ اصغر میں کبھی تیر ترازو ہو جائے
.....تُم اِک گورکھ دھندا ہو

....راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں
.....وہ ہی حالات و خیالات میں ان بن دیکھوں


....بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
.....غور سے جب بھی کبھی دُنیا کا درپن دیکھوں
......ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اِتنے
....اِتنے حصّوں میں بنٹا ایک ہی آنگن دیکھوں

.....کہیں ذہمت کی سُلگتی ہوئی پتجھڑ کا سما
.....کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
.....کہیں پھنکارتے دریا، کہیں خاموش پہاڑ
.....کہیں جنگل، کہیں صحرا، کہیں گلشن دیکھوں
.....خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
.....کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نردھن دیکھوں

دِن کے ہاتھوں میں فقط ایک سُلگتا سورج۔۔۔۔
رات کی مانگ ستاروں سے مضیّن دیکھوں۔۔۔۔
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہیں سچّائی کے۔۔۔۔۔


اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں میں بھی جوبن دیکھوں۔۔۔۔۔
شمس کی کھال کہیں کھنچتی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔
کہیں سرمد کی اُترتی ہوئی گردن دیکھوں۔۔۔۔


رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے۔۔۔۔
یہ اُجالا یہ اندھیرا کیا ہے۔۔۔۔۔۔


میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر۔۔۔۔۔
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے۔۔۔۔۔
تُم اِک گورکھ دھندا ہو۔۔۔۔

دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا۔۔۔۔
تو نے ہر سمت سے پردا ہی کیا۔۔۔۔
تُم اِک گورکھ دھندا ہو۔۔۔۔

 

مسجد مندر یہ میخانے، کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے۔۔۔۔
سب تیرے ہیں جانا کاشانے، کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے۔۔۔


اِک ہونے کا تیرے قائل ہے، اِنکار پہ کوئی مائل ہے۔۔۔۔
اصلیت لیکن تو جانے، کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے۔۔۔۔

....اِک خلق میں شامل کرتا ہے،اِک سب سے اکیلا رہتا ہےہیں دونوں تیرے مستانے، کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے۔۔۔۔

 

سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے۔۔۔

کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے۔۔۔۔

تُم اِک گورکھ دھندا ہو۔۔۔۔

.....دیر میں تو حرم میں تو، عرش پہ تو، زمیں پہ تو
.....جس کی پہنچ جہاں تلک، اُس کے لئے وہیں پہ تو
....تُم اِک گورکھ دھندا ہو

.....ہر ایک رنگ میں یکتہ ہو
....تُم اِک گورکھ دھندا ہو


......مرکزِ جستجو، عالمِ رنگ و بو
......دم بہ دم جلوہ گر، تو ہی تو چار سو
.....ہوُ کے ماحول میں کچھ نہیں الاہو


.....تُم بہت دلربا، تُم بہت خوبرو
.....عرش کی عظمتیں فرش کی آبرو
....تُم ہو کونین کا حاصلِ آرزو

.....آنکھ نے کر لیا آنسووں سے وضو
......اب تو کر دو عطا دید کا اِک صبو


......آؤ پردے سے تُم آنکھ کے رو بہ رو
......چند لمحے مِلن دو گھڑی گفتگو


......ناز جپتا پھرے جا بہ جا کوُ بہ کوُ
.....وحدہو، وحدہو، لا شریکہ لہو


اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

Comments

Popular posts from this blog

نہ کوئی آپ جیسا تھا...نہ کوئی آپ جیسا ہے.....! Urdu Poetry-ARK .22

14 August speech | Meri Pehchan Pakistan Speech in Urdu Written

بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے... ! Urdu Poetry-ARK.50

نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو ! Urdu Poetry-ARK .03

وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا ، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا...... Urdu Poetry-ARK .33